Mobile

کورونا وائرس کے خلاف پہلی صفوں میں لڑنے والے ڈاکٹر اسامہ اور ان جیسے بہادر جنہوں نے اپنی جانیں تک قربان کردیں

جنگ کا اصول یہی ہوتا ہے کہ اس میں پہلی صفوں میں سب سے بہادر اور جری جوانوں کو رکھا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی ہمت اور حوصلے کے ساتھ دشمن کے چھکے چھڑا سکیں ۔ اس وقت پوری دنیا حالت جنگ میں ہے اور ان سب کا مقابلہ کورونا وائرس نامی ایسے دشمن سے ہے جس کو ہلاک کرنے والا ہتھیار اب تک دریافت نہیں ہو سکا ۔یہ جنگ اس حوالے سے بھی محتلف ہے کہ اس میں پہلی صفوں میں لڑنے کے لیے فوجیوں کے بجائے ڈاکٹروں ، نرسوں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کا استعمال کیا جا رہا ہے اور دنیا بھر کے ڈاکٹر اس وقت لوگوں کو یہ پیغام دیتے نظر آرہے ہیں کہ چونکہ ہم گھر سے باہر ہیں تاکہ آپ محفوظ رہ سکیں- اس لیے آپ اپنے گھروں میں آرام سے رہیں اس جنگ میں دنیا کے بہت سارے ڈاکٹروں نے اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کر کے ایک ہیرو کا درجہ حاصل کیا آج ہو آپ کو ایسے ہی ڈاکٹروں کے بارے میں بتائيں گے
1: لیو زیمنگ چین
لیو زیمنگ جو کہ چین کے شہر ووہان کے ہسپتال میں ڈائریکٹر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجاط دے رہے تھے- ان کا شمار دنیا کے ان افراد میں ہوتا ہے جنہوں نے کرونا وائرس کے خلاف سب سے پہلے اپنی جنگ کا آغاز کیا- ان کی جنگ کا آغاز اس وقت ہوا جب کہ ڈاکٹروں کے پاس نہ تو مکمل محفوظ لباس موجود تھا اور نہ ہی ماسک موجود تھے- اسی وجہ سے ڈاکٹر لیو زیمنگ اس بیماری کے مریضوں کا علاج کرتے کرتے اس بیماری میں مبتلا ہو گئے اور تمام تر کوششوں کے باوجود 51 سال کی عمر میں کرونا وائرس سے لڑتے ہوۓ جان کا نذرانہ پیش کیا
2: مارسیلو نٹالی اٹلی
کرونا وائرس سے ہونے والی جنگ میں سب سے زیادہ نقصان اٹلی نے اٹھایا ہے جہاں پر ہلاکتوں کی تعداد چین سے بھی زیادہ ہو گئی ہے اور روز بروز اس میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے- اٹلی کی اس بری صورتحال کا ذمہ دار ڈاکٹر مارسیلو نٹالی نے وہاں کی حکومت اور عوام دونوں کو قرار دیا ۔ اپنی موت سے قبل ایک اخبار کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ہم اس آفت کے لیے کوئی تیاری نہیں کر سکے ہمارے پاس ماسک کی کمی ہے طبی سامان اور آگہی کی کمی ہے- ریجنل ڈاکٹرز کی ایک تنظیم کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے کرونا وائرس کے مریضوں کی بہتری کے لیے دن رات کام کیا- یہاں تک کہ خود بھی کرونا میں مبتلا ہو کر ڈبل نمونیہ کا شکار ہو گئے اور 57 سال کی عمر میں ہلاک ہوگئے
3: ڈاکٹر شیریں روحانی ایران
ڈاکٹر شیریں روحانی جو کہ ایران کی شہدا ہسپتال نامی ہسپتال میں اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہی تھیں- ڈاکٹر اور دیگر میڈیکل سہولیات کی کمی کے باعث دن رات لوگوں کے علاج کے لیے ان کے ہمراہ رہیں- یہاں تک کہ خود بھی کرونا کے مرض میں مبتلا ہو گئیں مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور ان کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوئی جس میں ان کے اپنے ہاتھ پر ڈرپ لگی ہوئی ہے- اس کے باوجود وہ آرام کرنے کے بجائے اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں اور اسی حالت میں انہوں نے اپنی جان خالق حقیقی کے سپرد کر دی دنیا بھر کے لوگوں نے ان کی خدمات کے بدلے ان کو خراج تحسین پیش کیا
4: جین جیکوئیس فرانس
جین جیکوئیس جن کی عمر 68 برس تھی اور وہ پیشے کے اعتبار سے ایک ڈاکٹر تھے مگر ریٹائر ہو چکے تھے- مگر جس وقت ان کو فرانس میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا پتہ چلا تو انہوں نے خود کو رصاکارانہ طور پر پیش کر دیا اور کرونا وائرس کے مریضوں کے علاج کے لیے دن رات ہسپتال میں گزارنے شروع کر دیے- جس کے نتیجے میں خود بھی کرونا میں مبتلا ہو گئے اور اپنی قوم کے لوگوں کے لیۓ اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا

5: ڈاکٹر اسامہ پاکستان
کرونا وائرس کی جنگ میں ڈاکٹر اسامہ کی بہادری کا ثبوت اس سے زیادہ کیا ہوگا کہ ان کی خدمات کا اعتراف امریکی نائب وزیرخارجہ نے اپنے ٹوئٹ میں بھی کیا تھا- ڈاکٹر اسامہ کا تعلق پاکستان کے علاقے گلگت بلتستان سے تھا اور وہ ایف سی پی ایس کے دوسرے سال کے طالب علم بھی تھے- جب تفتان سے آنے والے لوگ گلگت بلتستان میں قرنطینہ میں لائے گئے تو ان کے علاج کی ذمہ داری ڈاکٹر اسامہ کے کاندھوں پر بھی آئی جس کو انہوں نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے انتہائی ایمانداری سے ادا کیا- یہاں تک کہ خود بھی کرونا جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو گئے اپنے آخری ویڈیو پیغام میں ان کا یہ کہنا تھا کہ کرونا ایک انتہائی تکلیف دہ بیماری ہے اس وقت اپنے گھروں میں کھانا جمع کرنے کے بجائے اس بات کی کوشش کریں کہ اس بیماری سے محفوظ رہ سکیں ۔ ان کو مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا


Post a Comment

0 Comments